اُترپردیش میں مخالف اقلیت سرگرمیوں پر امریکہ کو تشویش

IQNA

ہندوستان پر نظر رکھنے امریکی کمیشن کی سفارش

اُترپردیش میں مخالف اقلیت سرگرمیوں پر امریکہ کو تشویش

18:36 - June 22, 2021
خبر کا کوڈ: 3509638
تہران (ایکنا) مساجد کا انہدام ، مسلمانوں کیخلاف نفرت پر مبنی حرکتیں، لوجہاد ، تقریریں قابل گرفت ۔ ہندوستان پر نظر رکھنے امریکی کمیشن نے تشویش کا اظھار کردیا۔

سیاست نیوز کے مطابق ہندوستان میں بالخصوص ریاست اُترپردیش میں حالیہ برسوں کے دوران اقلیتوں کے خلاف نت نئے قوانین اور مختلف مضرت رساں سرگرمیوں پر امریکہ نے سخت تشویش کا اظہار کیاہے ۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کا کہنا ہے کہ اُترپردیش میں غیرقانونی مذہبی تبدیلی کی بنیادوں پر بین مذہبی شادیوں کو جرم قرار دینے والا نیا قانون امتیاز پر مبنی ہے اور اس کا مذہبی آزادی پر اثر پڑ رہاہے ۔ کمیشن نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ موجودہ ریاستی حکومت نے سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت پر مبنی تقریروں اور دیگر سرگرمیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اُن کی بالواسطہ سرپرستی کا کام کیاہے ۔ مساجد کو اب بھی منہدم کیا جارہا ہے ۔ کمیشن کی طرف سے سینئر پالیسی انالسٹ نائیلہ محمد نے کہا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں اکثر و بیشتر تشدد دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ مختلف وجوہات بیان کرتے ہوئے ریاستی حکومت بین مذہبی شادیوں کو ممنوع قرار دے رہی ہے اور اس کے لئے مختلف تاویلیں پیش کررہی ہیں۔ نائیلہ واشنگٹن ڈی سی میں گزشتہ ہفتے کانگریس کی بریفنگ میں بیان دے رہی تھیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ لوو جہاد سے متعلق قانون خاص طورپر مسلم اقلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے اور مسلمانوں کو ہی اس کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اُترپردیش کے قانون کو مثال بناتے ہوئے ہندوستان کے دیگر کئی حصوں میں بھی بی جے پی حکومتیں ایسے قوانین بناسکتی ہیں ۔ چنانچہ ملک بھر میں مذہبی آزادی پر دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ نائیلہ محمد نے کہاکہ کٹرپسند ہندوؤں نے اشتعال انگیز تقریروں اور مہمات کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ اُن کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ اس قانون کے نتیجے میں کئی غیر ہندو افراد گرفتار کئے جاچکے ہیںاور بین مذہبی رابطے کو بڑے جرم کے طورپر پیش کیا جارہاہے ۔ نائیلہ محمد نے لوو جہاد سے متعلق قانون کے علاوہ اُترپردیش میں مساجد کے انہدام اور اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر جیسے موضوعات پر بھی کانگریس کو تفصیل سے واقف کرایا ۔ اُنھوں نے کہاکہ گزشتہ ماہ یوپی میں دو مساجد منہدم کئے گئے جن میں سے ایک سرکاری عہدیداروں نے عدالت کے حکمنامہ کو بالائے طاق رکھ کر منہدم کردی ، جو امریکی کمیشن کے لئے خاص طورپر بڑی تشویش کا معاملہ ہے ۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ایک نمایاں فیصلے میں 1992 ء میں منہدمہ بابری مسجد کی اراضی کو کٹرپسند ہندوؤں کے حوالے کردیا تاکہ وہاں اُس مقام پر رام مندر تعمیر کی جاسکے ۔ وہی تبدیلی امریکی کمیشن کے لئے تشویش کی بات تھی کہ ایک سال کے اندرون یوپی میں اُس طرح کے اقدام کو وسعت دینے کی سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ کانگریس بریفنگ میں ارکان امریکی کانگریس کے پالیسی اسٹاف اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداران و دیگر شریک ہوئے ۔ اس بریفنگ کا اہتمام ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے ، انڈین امریکن مسلم کونسل ، ہندوز فار ہیومن رائیٹس ، انڈین سیول واچ انٹرنیشنل ، دلت سالیڈاریٹی فورم ، انٹرنیشنل کرسچن کنسرن ، جسٹس فار آل اور فیڈریشن آف انڈین امریکن کرسچن آرگنائزیشنس آف نارتھ امریکہ کی طرف سے کیا گیا ۔ نائیلہ محمد نے کہا کہ این جی اوز کو بیرونی فنڈنگ پر حکومت ہند نے تحدیدات عائد کئے ہیں جس سے یوپی میں مذہبی آزادی متاثر ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے مواقع پیدا ہورہے ہیں ۔ اُنھوں نے کہاکہ موجودہ طورپر یوپی میں سیول سوسائٹی کی آزادی متاثر ہے ۔ اسی لئے کمیشن نے سفارش کی ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو چاہئے کہ ہندوستان کو تشویش والا ملک قرار دیا جائے کیونکہ وہ عدم راواداری کی حرکتوں میں ملوث ہورہا ہے ، مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہورہا ہے ۔ نائیلہ محمد نے کہاکہ مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور اُنھیں عدم رواداری والی برادری کے طورپر پیش کیا جارہاہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں اور دلتوں کو بھی ہراساں کرنا اور اُنھیں دھمکانا اور ہجومی تشدد کا نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے ۔ اُنھوں نے سرکاری عہدیداروں کی نفرت پر مبنی لفاظی اور سوشل میڈیا پر دیگر سرگرمیوں کو پیش کیا اور اپنی بات کے حق میں ثبوت کے طورپر بیان کیا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے سے وابستہ ہندوستانی ماہر گووند اچاریہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کے ظالمانہ دھاوے کا حوالہ دیا ۔ اُنھوں نے کہاکہ اُترپردیش میں یہ تاریخی تعلیمی ادارہ ہے جہاں طلبہ کو پولیس نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا کیونکہ اُنھوں نے سی اے اے ۔ این آر سی کے خلاف پرامن احتجاج کیا تھا ۔ ایمنسٹی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ پولیس نے اپنی کارروائی کے بعد ایمبولینس گاڑیوں کو روکا تاکہ وہ زخمی طلبہ کو دواخانوں تک پہونچا نہ سکے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ اے ایم یو اور یوپی کے دیگر حصوں میں سخت کارروائی سی اے اے احتجاجوں کے دوران پولیس کو استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنا کا نمایاں طریقہ رہا ۔

 

نظرات بینندگان
captcha